زمان ماما مرحوم کے تاثرات
Author: | حضرت اقدس مولانا آزاد گل صاحبؒ |
---|---|
Uploaded on | 04 October,2021 |
Details: | میں نے اپنی زندگی میں مولانا آزاد گل رح جیسا عظیم المرتبت بزرگ اور ولی اللہ نہیں دیکھا. میں اس بات پر اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ مجھے حضرت کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا اور تھوڑی بہت خدمت کا بھی اللہ نے موقع دیا. آج میں اپنی زندگی کا ایک اہم واقعہ جو باباجی سے متعلق ہے آپ تمام احباب سے شئیر کرنا چاہتا ہوں. ہم روزانہ بلا ناغہ باباجی کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا کرتے تھے اور انکے پاؤں میں بیٹھ کر میٹھے میٹھے پیار اور محبت بھری باتیں سنا کرتے تھے, اور انکے پاؤں دباتے تھے. چونکہ میرے والد صاحب میرے بچپن میں وفات پا چکے تھے, کمائی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں تھا مالی حالت انتہائی خراب تھی, بلکہ حالت فاقوں تک پہنچ گئی تھی. میں نے جیسے تیسے بی اے تک تعلیم مکمل کی, آج کے دور میں روزگار ملنا بھی ایک مشکل بلکہ ہم جیسے غریبوں کیلئے تو تقریبا ناممکن ہی ہے. میں نے ایک دن باباجی سے جاب کے حوالے سے دعا کیلئے درخواست کی, تو حضرت نے بلا تأمل مجھے تعلیمی اسناد لانے کا کہا. اگلے دن میں بمع اپنے تمام اسناد کے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا. اس وقت میرے ساتھ ادریس ولد غلام محمد ماما اور انکے چچا زاد بھائی زید بھی موجود تھے. یہ ان دنوں کی بات ہے جب باباجی کی بینائی تقریبا ختم ہوگئی تھے. حضرت نے مجھ سے کہا کہ ایک ایک سند پکڑاتے رہو میں ایسا ہی کرتا رہا اور حضرت ہر ایک سند پر کچھ دم(شف) کرکے سائیڈ پر رکھ دیتے تھے. مختصر یہ کہ میں اپنی کاغذات لیکر محمد سرور خان سابقہ ڈائریکٹر فائنانس انجنئیرنگ یونیورسٹی چلا گیا, ان دنوں انہوں نے کوئی اپریشن کیا ہوا تھا,اور ڈاکٹرز نے ملاقات اور ہر قسم کی دفتری سرگرمیوں سے منع کر دیا تھا. انھوں نے مجھے گھر کے اندر سے شیشوں میں سے دیکھ کر نوکر بھیج دیا, حالانکہ وہ مجھے جانتے پہچانتے تک نہیں تھے. اس نوکر نے مجھ سے وہ کاغذات لے لئے اور یہ کہ کر چل دئیے کہ میں انکو محمد سرور خان صاحب کے حوالے کردوں گا. میں یہ سوچتے ہوۓ واپس پلٹا کہ پتہ نہیں انکو میرے جیسے اورکتنے لوگ اپنے کاغذات دیتے ہونگے اور یہ جان چھڑانے کیلئے کاغذات تو جمع کرتے ہونگے لیکن سب کی ایک جگہ ہوگی وہ ہے ردی کی ٹوکری.. بہر حال گاؤں واپس آکر باباجی کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا ماجرا سنا دیا,تو انہوں نے فرمایا کہ اسماعیل فکر نہ کرو کل جا کے ان سے مل لینا وہ کل ڈیوٹی پے آئیں گے. میں حیران رہ گیا کہ باباجی اس طرح کیوں فرما رہے ہیں حالانکہ سرور صاحب انتہائی بیمار تھے حتی کہ ڈاکٹرز نے لوگوں سے ملنے پر بھی پابندی عائد کردی تھی. بہر حال ایک موھوم سی امید لیکر اگلے دن محمد سرورخان صاحب ڈائریکٹر فائنانس سے ملنے پشاور روانہ ہوگیا( یاد رہے ان دنوں میرے پاس کرایہ کے پیسے بھی نہیں تھے), دفتر پہنچ کر میری حیرت کی انتہاء نہ رہی جب میں نے سرور صاحب کو دفتر میں موجود پایا, میں نے ایک پرچی پر اپنا نام لکھ بھیج دیا,تھوڑی دیر بعد مجھے دفتر میں بلا لیا گیا. میں ان کے سامنے بیٹھ گیا اور انہوں نے بلا کسی پوچھ گچھ اور سوالات کے میری فائل الماری سے نکال کر کہا کہ یہ تمہاری فائل ہے؟ میری تو مارے حیرت کے پاؤں تلے زمین نکل گئی. میں حیران تھا کہ کہاں میں اور کہاں سرور صاحب جیسے بڑے آفیسر کہ انھوں میری فائل گھر سے لاکر اتنے اہتمام سے الماری میں سنبھال کے رکھا ہوا تھا. بس وہی پر مجھے یقین ہوگیا کہ یہ کھیل کیا ہے اور کن کی دعائیں ہیں جو اثر کر رہی ہیں. ٹھیک ایک ہفتے کے اندر میرے چچا کے پی ٹی سی ایل نمبر پر یونیورسٹی سے کال آئی کہ اسماعیل سے کہ دیں کہ آکر اپنا آرڈر وصول کریں. اس دن ہم سب گھر والے مارے خوشی کے بہت روۓ, کیونکہ ہمیں اپنے فاقے ختم ہونا نظر آرہے تھے. گو کہ میری پہلی تعیناتی ایک معمولی پوسٹ پر ہوئی لیکن بزرگوں, والدین کی دعاؤں کے طفیل اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آج میں ایک بہترین پوسٹ پر کام کر رہا ہوں باباجی کی وفات سے ہم ایک مرتبہ پھر یتیم ہوگۓ ہیں, اور انکی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہیں, وہ تو سراپا محبت اور محسن انسانیت تھے. حضرت ہمارے لئے والدین سے بڑھ کر مشفق اور مہربان تھے, اور یہ معاملہ صرف میرے ساتھ نہیں بلکہ ہر خاص و عام کیساتھ تھا. اللہ تعالی ان پر کروڑوں رحمتیں نازل فرماۓ. آمین. |
© Copyright 2025. Powered by- SKYBOTS Technology