خاندانی پس منظر
Author: | حضرت اقدس مولانا آزاد گل صاحبؒ |
---|---|
Uploaded on | 04 October,2021 |
Details: | والد محترم بعرض تعلیم و تعلم کے پشاور سے چارسدہ منتقل ہوئے تھے, اساتذہ سے محبت اور اس علاقے کا دینی مزاج حضرت کو بہت بھایا جسکی بنا پر یہاں مستقل سکونت اختیار کرلی. اصلا والد صاحب کے آبا و اجداد کا تعلق ضلع پشاور بڈھ بیر کے گاؤں ماشو گگر سے تھا. یہاں ایک اور نسبت کا ذکر بھی کرتا جاؤں. محمود غزنوی رحمة اللہ علیہ نےجب سومنات کو فتح کرکے شمالی علاقہ جات سے ہوتے ہوۓ پشاور پہنچے تو انکی ملاقات اس وقت کے ایک بزرگ اور نیک و متقی شخصیت سے ہوگئی جس کا نام سید مومن شاہ گگری تھا,اس ولی کامل کی ورع وتقوی اور للھیت سے متاثر ہو کر سلطان محمود غزنوی نے اپنی ایک بیٹی حضرت کی نکاح میں دیدی,اور خود افغانستان چل دیئے. سید مومن شاہ گگری(رح) کا محمود غزنوی (رح) کی بیٹی سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام سید حافظ محمد تھا. اس سلسلے سے آگے چل کر اس جہاں کو بڑے بڑے علماء کرام اور اولیاء اور حفاظ دئیے. سید محمد حافظ (رح) کے ہاں مولانا جمعہ خان کی پیدائش ہوئی جو بہت بڑے عالم اور اللہ کے ولی تھے.یہ ایک بہت بڑی علمی شخصیت تھی ان کا درس کا حلقہ بہت وسیع تھا اور ایک کثیر تعداد میں رہائشی طلباء کا کھانا اور دیگر ضروریات اپنے جیب سے پوری کرتا تھا... اس دور میں یہ خاندان اپنے علاقے میں "باچاگان" کے نام سے مشہور تھا. اور ایک عجیب بات ذکر کرنا چاہوں گا جو مجھے اس تحقیق کے دوران ملی وہ یہ کہ اس زمانے میں جب اس خاندان کا کوئی فرد فوت ہوجاتا تو اللہ کی شان دیکھئے اس کا بدن نرم رہتا اور گاؤں کے لوگ اس کے ہاتھ بطور تبرک اپنے جسموں پر ملتے,اور میت کو برکت کے طور پر اپنے گلی کوچوں میں گھماتے... مولانا جمعہ خان(رح) کا سلسلہ آگے چلا اور ان کے ہاں مولانا محمد قاسم کی پیدائش ہوئی جو بعد میں نہایت اعلی درجے کا مدرس اور نیک و پارسا بزرگ ہستی بن گئی تھی. اللہ تعالی نے مولانا محمد قاسم رحمة اللہ علیہ سے دین کا بڑا کام لیا.ان سے ایک کثیر تعداد میں لوگ مستفید ہوۓ. کچھ عرصہ بعد مولانا قاسم رحمة اللہ علیہ نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر اپنا آبائی گاؤں کو چھوڑ کر ماشو گگر کے قریب ایک گاؤں جو سلیمان خیل کے نام سے مشہور ہے وہاں سکونت اختیار کی. حضرت آخر عمر تک سلیمان خیل میں دین کی خدمت میں مشغول عمل رہے اور دین کی خدمت کرتے کرتے اس دار فانی سے کوچ کر گئے, ان کا مدفن مقبرہ سلیمان خیل میں ہے. ان کے چار فرزند تھے. 1:مولانا مرسلین رح مدفون مقبرہ سلیمان خیل 2:محمد صابرین مدفون مقبرہ سلیمان خیل 3:محمد محسنین مدفون مقبرہ ماشوگگر 4:مولانا حکیم صالحین چشتی رح. اس سلسلہ میں ولی کامل,اور بزرگ مولانا حکیم صالحین چشتی (رح) سے اللہ تعالی نے بہت کام لیا,اور تصوف کے میدان کا ایک شہسوار گردانے جاتے تھے. ان کے لاکھوں مریدین و متعلقین اندرون و بیرون ملک موجود ہیں.حضرت والا عمرزئی چارسدہ میں میں مدفون ہے. مولانا صالحین (رح) کے گھر میں سنہ 1943میں حضرت والد محترم(مولانا محمد آزاد گل نور اللہ مرقدہ) کی پیدائش ہوئی. الحمد للہ اس خاندان پر کوئی بھی دور ایسا نہیں گزرا کہ اس میں علماء و حفاظ موجود نہ ہو.. والد محترم کا ایک بھائی جو مولانا حکیم ضمیر گل رحمة اللہ علیہ ایک جید عالم تھے,اللہ تعالی ان پر کروڑوں رحمتیں نازل فرماۓ. جناب اشرف علی صاحب جو کہ باقاعدہ عالم تو نہیں لیکن مبادیات علم پڑھ لی ہیں. تیسرا بھائی جناب حکیم مولانا حضرت علی دامت برکاتہم ہیں جو عمرزئی چارسدہ میں رہائش پذیر ہے. اور ایک بڑے مدرسے کا مہتمم اور مدرس بھی ہیں. والد محترم کے دو بیٹے ہیں. محمد ابراہیم اور محمد اسماعیل آزاد الحمد للہ ثم الحمد للہ دونوں دین کی تعلیم و تعلم سے وابستہ ہیں.. حضرت مولانا محمد آزاد گل رحمہ اللہ کی وفات جون سنہ 2008 میں ہوئی اور مزار مبارک ڈھکی چارسدہ کی قبرستان میں موجود ہے. اللہ تعالی حضرت رحمہ اللہ کی برکات اس کے خاندان ,بچوں,مریدین,متعلقین,محبین اور تمام اہل اسلام پر رکھے اور حضرت کے قبر مبارک پر تا قیامت کروڑوں رحمتیں برساۓ.. آمین یا رب العالمین.. |
© Copyright 2025. Powered by- SKYBOTS Technology